سورج کی تپش , پانی کی قلت بارش کی ضرورت

        سورج کی تپش , پانی کی قلت  بارش کی ضرورت 


اپریل  مئی  ۴۲۰۲  میں کئی ملک سورج کی سخت تپش کے شکار ہوچکے ہیں  انہیں ملکوں میں سے ایک ملک ہندوستان بھی ہے  ہندوستان میں سورج کی تپش کی وجہ سے تیزگرمی اور گرم ہوائیں چل رہی ہیں 

تالابوں  ندیوں  نالوں  بورول  میں سے پانی سوکھ نے لگاہے  انسانی زندگی کے لئے پانی ناکافی محسوس کیا جارہا ہے  جنگلات میں جانورمرنے لگے ہیں  انسان کوپانی کی پیاس تڑپارہی ہے  ٹیانکروں سے پانی منگوانابھی بڑا مہنگاپڑرہاہے  جو صاف شفاف پانی بچاہے اس کی قیمت آسمان چھورہی ہے  ہرجگہ سخت پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے  اور سخت گرمی سے انسان شرابور ہورہے ہیں  مئی جون کی گرمی کیسی ہوگی لوگ یہ سوچ کر پریشان ہورہے ہیں  محکمہ موسمیات نے تیزدھوپ اور شدد کی گرمی میں ٹھنڈے مشروبات اور ٹھنڈے پانی کے استعمال سے بچنے کی اطلاع دی ہے اورکہاہے کہ زیادہ سے زیادہ  پانی پیتے رہیں اور اپنی اور اپنی اٰل و اولادکی صحت کا خاص خیال رکھیں  

              قرآن ِ مجیدمیں بارش کا ذکر 

اللہ پاک نے اپنے مقدس وبابرکت قرآن ِ مجیدپارہ ۸۱ سورہ موء منون آیت نمبر ۸۱ میں بارش کا ذکر کیاہے۔ترجمہ۔اور ہم نے آسمان سے پانی اُتارا  ایک اندازہ پر  پھراُسے زمین میں ٹھرایا اور بیشک ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں۔جب بارش زیادہ ہوتی ہے تو کبھی کبھی ندی کے کنارے کے مکانات انسان جانور بہ جاتے ہیں پانی قریب کے گھروں میں داخل ہوجاتاہے  راستوں گلی کوچوں میں پانی ہی پانی نظر آتاہے  کئی دفع کافی نقصان بھی اٹھانا پڑتاہے  اللہ پاک فرمارہاہے کہ ہم نے آسمان سے مینہ (بارش) برسایا  ایک اندازہ پر  ایک اندازہ سے مراد کیا ہے تفسیرخزائن العرفان میں مولانا سید نعیم الدین مرآدابادی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ۔خلق کی حاجتوں کے لئے جتنا پانی چاہئے تھا اللہ پاک نے اپنے علم و حکمت سے اُتارا ہے  حضرت انسان اسی پانی کواپنے اپنے طور طریقوں کے مطابق محفوظ کرتے ہیں لیکن پھر بھی پانی سب کے لئے ناکافی ثابت ہوتاہے  پراللہ پاک کی قدرت پر ہزاروں لاکھوں بار قربان جائیں تو بھی کم ہے کہ وہ ذات یکتہ مخلوق کی ضرورت کے تحت بارانِ رحمت کا نزول بھی کرتاہے اوراس پانی کو زمین میں ٹھہراتابھی ہے (فاسکنہ فی الارض)یعنی پانی کومحفوظ بھی کرتاہے  اس آیت کریمہ کی تفسیر تفسیر ابن عباس  تفسیر روح البیان وغیرہا تفاسیر میں موجود ہے کہ پانی کو زمین پر ندی نالے تالابوں سمندروں میں محفوظ کیا ہے اورمخلوق کی ضرورت کے تحت پانی زمین کے اندر محفوظ کردیاہے کہ میرے بندے زمین کے اندر سے بھی صاف شفاف میٹھا پانی حاصل کریں  اور ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ سورہ طلاق آیت نمبر۲۱  میں اللہ پاک نے سات زمین اور سات آسمان پیداکرنے کا ذکر کیاہے تواللہ پاک پانی کو تحت الثرایعنی زمین کے سب سے نیچے کے طبقہ (پاتال)میں رکھتا تو کیا ہم باآسانی پانی حاصل کرسکتے؟اگر نہیں تو اللہ پاک کا مخلوق پر کتنافضل و کرم ہے کہ انسان ۰۰۳ تین سو فٹ ۰۰۴ فٹ ۰۰۰۱ فٹ کھودتاہے تو آسانی کے ساتھ پانی مل جاتاہے۔ جب وہ باران رحمت کا نزول کرتاہے تووہ اس پانی کو ختم کرنے یعنی زائل کرنے پربھی قادر ہے (وانا علی ذھاب بہ لقدرون)اس لئے انسان کو چاہئے کہ پانی کی قدر کریں اور شکرِ خدا بجالائیں  پانی کااسراف نہ کریں  پیاسوں کی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کریں 

            بارش سے پہلے ہوائیں کیوں چلتی ہیں       

ہاں یہ بھی ایک سوال ہے کہ بارش سے پہلے ہوئیں کیوں چلتی ہیں  توجواب یہ ہے کہ  ہوائیں کسانوں انسانوں  جانوروں وچرندپرندو  زمیں پربسنے والوں کو بارش کے نزول کا مژدہ سناتی ہیں کہ اللہ کی جانب سے بارانِ رحمت کا نزول ہونے والاہے  اللہ پاک پارہ ۹۱ سورۃ الفرقان آیت ۸۴میں فرماتاہے ترجمہ کنزالایمان۔اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سناتی ہوئی اور ہم نے پانی اُتارا پاک کرنے والا۔تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ حسب اقتضائے حکمت  بارش کبھی کسی شہر میں ہوکبھی کسی میں  کبھی کہیں زیادہ ہو کبھی کہیں مخطلف طور پرنازل ہوتی ہے حدیث پاک میں ہے کہ آسمان سے روزو شب کی تمام ساعتوں میں بارش ہوتی رہتی ہے اللہ پاک اسے جس خطہ کی جانب چاہتاہے پھیرتاہے اور جس زمین کو چاہتاہے سیراب کرتاہے۔(ولقد صرفنٰہ بینھم لیذکروا) تو پتاچلاکہ اللہ پاک کے حکم سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں ہوائیں پہلے مژدہ سناتی ہیں خوشخبری سناتی ہیں  پھر بارش نازل ہوتی ہے  آسمان سے ناپاک پانی نہیں اتر تا  غلیظ پانی نہیں اُترتا  بیکار پانی نہیں اُترتا  فضول پانی نہیں اُترتا  بلکہ (ماء طھورا)یعنی پاک پانی اترتاہے اور یہ پانی پاک کرنے والا بھی ہوتاہے  مسئلہ مینہ ندی نالے چشمے سمندر دریا کوئیں اور برف اولے کے پانی سے وضووغسل جائز ہے  تنبیہ۔جس پانی سے وضو جائزہے اس سے غُسل بھی جائز ہے اور جس سے وضوناجائز غسل بھی ناجائز۔

        قحط میں دعائے مصطفی ﷺ سے پوراہفتہ بارش ہوئی 

صحیح البخاری کتاب الجمعہ اور ابواب الاستسقاء میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے عہدرسالتمآب ﷺ میں ایک سال لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے  ایک اعرابی منبر کے سامنے والے دروازے سے مسجد میں داخل ہوا  رسولُ اللہ ﷺ کھڑے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے  اس اعرابی نے وہیں کھڑے کھڑے رسولُ اللہ ﷺ کی طرف منہ کیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ لوگوں کا مال تباہ ہوگیا  راستے بند ہوگئے بچے فاقوں مرگئے آپ اللہ پاک سے بارش کی دعا فرمائے  حضرت انس بن مالک کہتے ہیں آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ ہمیں سیراب فرما(اللھم اسقنا  اللھم اسقنا  اللھم اسقنا) اس وقت پورے آسمان پر بادل کا ایک ٹکرانہ تھا حضرت انس بن مالک کہتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ہاتھ اٹھانے کی دیر تھی پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے بادلوں کے ٹکڑے امڈے آپ منبر سے ابھی اترے بھی نہ تھے کہ بارش (کے پانی) کوآپ کی داڑھی سے ٹپکتے ہوئے دیکھا اس دن دوسرے دن تیسرے دن حتی کہ اگلے جمعہ کے دن تک بارش ہوتی رہی تو وہی اعرابی یاکوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عر ض کی یا رسول اللہ مکانات گرگئے ما ل مویشی ڈوب گئے  خداسے ہمارے حق میں دعا کیجئے  آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اے میرے اللہ ہمارے ارد گرد برسا ہمارے اوپر نہ برسااے میرے اللہ پہاڑوں ٹیلوں ٹیکریوں وادیوں اور درخت اُگنے کی جگہوں پربرسا اور جس طرف اشارہ کرتے جاتے بادل اسی طرف سے چھٹتے جاتے اور مدینہ گویا ایک دائرہ سا بن گیا  قناۃ کا نالہ مہینہ بھر بہتارہا  راوی کہتے ہیں بارش رُک گئی ہم دھوپ مین چلتے ہوئے باہر نکلے اور جوبھی کسی علاقہ سے آتا اس بارش کاحال بیان کرتا۔یہ حبیب خداکی دعاکی برکت ہے کہ قحط سالی دور ہوئی  اسی لئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی فرماتے ہیں 

             ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا۔ موج بحر سخاوت پہ لاکھوں سلام 

            وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا۔چشمہء علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

         وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں۔اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام 

          قحط سے نجات کی صورت  نمازِ استسقاء ہے 

کہیں قحط پڑجائے  ندی نالے جھیل سے پانی سوکھ جائے بورول سے پانی سوکھ جائے جانور پیاس سے تڑپے  انسان کی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل میں پانی کا اہم کردار ہے  انسان اپنے پاس مال ودولت  مکان ودکان  عزت و شہرت  سب کچھ رکھنے کے باوجود صاف شفاف پانی کا محتاج ہے  انسان کئی دن بھوکہ تو رہ سکتاہے مگر پیاسا نہیں رہ سکتا  پانی کے بغیرزندہ رہنا وہ بھی سخت گرمی میں ناممکن ہے  تو اس صورت میں اس قحط سے چھٹکاراکون دلائے گا  دنیاکی کوئی طاقت نظرنہیں آتی جو قحط سے چھٹکارا دلائے  ہاں ایک طاقت ہے جو اس قحط سے چھٹکارا دلا سکتی ہے وہ ہے نماز استقاء جو ہمارے نبی ﷺ نے تعلیم فرمائی ہے صحیح البخاری  ابواب الاستسقاء میں حضرت عباد بن تمیم اپنے والد اور وہ اپنے چچا عبد اللہ بن زید سے روایت کرتے ہیں رسولُ اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے اور بارش کے لئے دعا کی پھر قبلہ رخ ہوکر اپنی چادر الٹ دی اور دورکعت نماز پڑھی  اسی حدیث کے دوسرے الفاظ  ابواب الاستسقاء میں ہی یوں ہیں  رسولُ اللہ ﷺ لوگوں کو لے کر نماز استسقاء کے لئے تشریف لے گئے کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے اللہ پاک سے دعا کی پھر قبلہ رخ ہوئے اور اپنی چادر الٹ دی تو بارش ہوئی۔تو جہاں بھی قحط پڑجائے حدیث رسول ﷺ پر عمل کرکہ نماز استقاء ادا کریں  اپنے گناہوں پر نادم ہوں توبہ و استغفار کریں  اللہ پاک ضرور بارانِ رحمت کا نزول فرمائے گا 

                تحریر۔محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور

                امام مسجد رسولُ اللہ ﷺ  خطیب مسجد رحیمیہ میسور روڈ بنگلور

                      مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ  

                          نوری فاؤنڈیشن بنگلور کرناٹک انڈیا

                            رابطہ۔9886402786

tauheedtauheedraza@gmail.com             



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

عصر ی تعلیمی سال کاآغاز